جمعہ ۔ فضائل، مسائل اور احکام |
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیمِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَاَصحَابِہِ اَجْمَعِین۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ساری کائنات پیدا فرمائی اور ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ سات دن بنائے، اور جمعہ کے دن کو دیگر ایام پر فوقیت دی۔ جمعہ کے فضائل میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہفتہ کے تمام ایام میں صرف جمعہ کے نام سے ہی قرآن کریم میں سورہ نازل ہوئی ہے جس کی رہتی دنیا تک تلاوت ہوتی رہے گی، ان شاء اﷲ۔ سورۂ جمعہ مدنی سورہ ہے، اس سورہ میں ۱۱ آیات اور ۲ رکوع ہیں۔ اس سورہ کی آخری ۳ آیات میں نمازجمعہ کا تذکرہ ہے،جن کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے پکارا جائے، یعنی نماز کی اذان ہوجائے، تو اﷲ کی یاد کے لئے جلدی کرو۔ اور خرید وفروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ ﴿آیت ۹﴾ اور جب نماز ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ کا فضل تلاش کرو یعنی رزق حلال تلاش کرو۔ اور اﷲ کو بہت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ یعنی نماز تو صرف اسی جگہ ادا کرسکتے ہو لیکن ذکر ہر جگہ کرسکتے ہو۔ دیکھو مجھے بھول نہ جانا، کام کرتے ہوئے، محنت مزدوری وملازمت کرتے ہوئے ہر جگہ مجھے یاد رکھنا۔ ﴿آیت ۱۰﴾ جب لوگ سودا بکتا دیکھتے ہیں یا تماشہ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں، تو ادھر بھاگ جاتے ہیں اور تجھے کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔ تو فرمادیجئے جو اﷲ کے پاس ہے وہ بہتر ہے تماشے سے اور سودے سے، اور اﷲ سب سے بہتر رزق دینے والے ہیں۔ ﴿آیت ۱۱﴾
اذان جمعہ: جس اذان کا اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد ہوتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں یہی ایک اذان تھی۔ جب آپ حجرہ سے تشریف لاتے، منبر پر جاتے، تو آپ کے منبر پر بیٹھنے کے بعد آپ ﷺ کے سامنے یہ اذان ہوتی تھی۔ اس سے پہلے کی اذان حضور اکرمﷺ، حضرت ابوبکر صدیق ؓاور حضرت عمر فاروق ؓکے زمانے میں نہیں تھی۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ ؓکے زمانے میں جب لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو آپ نے دوسری اذان ایک الگ مکان (زوراء) پر کہلوائی تاکہ لوگ نماز کی تیاری میں مشغول ہوجائیں۔ زوراء: مسجد کے قریب سب سے بلند مکان تھا۔اﷲ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا: جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے۔۔۔ جب نماز سے فارغ ہوجائیں۔۔۔ یہ اذان کس طرح دیجائے؟ اس کے الفاظ کیاہوں؟ نماز کس طرح ادا کریں؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے، البتہ حدیث میں ہے۔ معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کریم سمجھنا ممکن نہیں ہے۔
جمعہ کا نام جمعہ کیوں رکھا گیا: اس کے مختلف اسباب ذکر کئے جاتے ہیں: (۱) جمعہ جمع سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں جمع ہونا۔ کیونکہ مسلمان اس دن بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیں اور امت مسلمہ کے اجتماعات ہوتے ہیں، اس لئے اس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ (۲) چھ دن میں اﷲ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور تمام مخلوق کو پیدا فرمایا۔ جمعہ کے دن مخلوقات کی تخلیق مکمل ہوئی یعنی ساری مخلوق اس دن جمع ہوگئی اس لئے اس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ (۳) اس دن یعنی جمعہ کے دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے، یعنی ان کو اس دن جمع کیا گیا۔
اسلام کا پہلا جمعہ: یوم الجمعہ کو پہلے یوم العروبہ کہا جاتا تھا۔ نبی اکرمﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے اور سورۂ جمعہ کے نزول سے قبل انصار صحابہ نے مدینہ منورہ میں دیکھا کہ یہودی ہفتہ کے دن، اور نصاریٰ اتوار کے دن جمع ہوکر عبادت کرتے ہیں۔ لہٰذا سب نے طے کیا کہ ہم بھی ایک دن اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لئے جمع ہوں۔ چنانچہ حضرت ابو امامہؓ کے پاس جمعہ کے دن لوگ جمع ہوئے، حضرت اسعد بن زرارۃ ؓنے دو رکعات نماز پڑھائی۔ لوگوں نے اپنے اس اجتماع کی بنیاد پر اس دن کا نام یوم الجمعہ رکھا ۔ اس طرح سے یہ اسلام کا پہلا جمعہ ہے۔ (تفسیر قرطبی)
نبی اکرمﷺ کا پہلا جمعہ: نبی اکرمﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے وقت مدینہ منورہ کے قریب بنو عمروبن عوف کی بستی قبا میں چند روز کے لئے قیام فرمایا۔ قبا سے روانہ ہونے سے ایک روز قبل جمعرات کے دن آپ ﷺ نے مسجد قبا کی بنیاد رکھی۔ یہ اسلام کی پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی۔ جمعہ کے دن صبح کو نبی اکرمﷺ قبا سے مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے۔ جب بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہونچے تو جمعہ کا وقت ہوگیا، تو آپﷺ نے بطن وادی میں اس مقام پر جمعہ پڑھایا جہاں اب مسجد (مسجد جمعہ) بنی ہوئی ہے۔ یہ نبی اکرمﷺ کا پہلا جمعہ ہے۔ (تفسیر قرطبی)
جمعہ کے دن کی اہمیت کے متعلق چند احادیث:رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کا دن سارے دنوں کا سردار ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے یہاں سارے دنوں میں سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔ یہ دن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک عید الاضحی اور عید الفطر کے دن سے بھی زیادہ مرتبہ والا ہے۔ اس دن کی پانچ باتیں خاص ہیں: (۱) اس دن اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ (۲) اسی دن ان کو زمین پر اتارا۔ (۳) اسی دن ان کو موت دی۔ (۴) اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اس میں جو چیز بھی مانگتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں بشرطیکہ کسی حرام چیز کا سوال نہ کرے۔ (۵) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ تمام مقرب فرشتے، آسمان، زمین، ہوائیں، پہاڑ، سمندر سب جمعہ کے دن سے گھبراتے ہیں کہ کہیں قیامت قائم نہ ہوجائے اس لئے کہ قیامت جمعہ کے دن ہی آئے گی۔ (ابن ماجہ) رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سورج کے طلوع وغروب والے دنوں میں کوئی بھی دن جمعہ کے دن سے افضل نہیں، یعنی جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے۔ (صحیح ابن حبان) رسول اﷲ ﷺ نے ایک مرتبہ جمعہ کے دن ارشاد فرمایا: مسلمانو! اﷲ تعالیٰ نے اس دن کو تمہارے لئے عید کا دن بنایا ہے لہذا اس دن غسل کیا کرو اور مسواک کیا کرو۔ (طبرانی، مجمع الزوائد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن ہفتہ کی عید ہے۔رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ کے نزدیک سب سے افضل نماز جمعہ کے دن فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ (طبرانی ، بزار) جہنم کی آگ روزانہ دہکائی جاتی ہے مگر جمعہ کے دن اس کی عظمت اور خاص اہمیت وفضیلت کی وجہ سے جہنم کی آگ نہیں دہکائی جاتی۔ (زاد المعاد ۱ / ۳۸۷)
جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کی تعیےن :رسول اﷲ ﷺ نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا: اس میں ایک گھڑی ایسی ہے جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے، اور اﷲ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اﷲ تعالیٰ اس کو عنایت فرمادیتا ہے اور ہاتھ کے اشارے سے آپ ﷺ نے واضح فرمایا کہ وہ ساعت مختصر سی ہے۔ (بخاری)رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ گھڑی خطبہ شروع ہونے سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک کا درمیانی وقت ہے۔ (مسلم)رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ مسلمان بندہ جو مانگتا ہے، اﷲ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں۔ اور وہ گھڑی عصر کے بعد ہوتی ہے۔ (مسند احمد) مذکورہ ودیگر احادیث کی روشنی میں جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے متعلق علماء نے دو وقتوں کی تحدید کی ہے: (۱) دونوں خطبوں کا درمیانی وقت، جب امام منبر پر کچھ لمحات کے لئے بیٹھتا ہے۔ (۲) غروب آفتاب سے کچھ وقت قبل۔
نماز ِجمعہ کی فضیلت:رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچوں نمازیں، جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے گناہوں کے لئے کفارہ ہیں جبکہ ان اعمال کو کرنے والا بڑے گناہوں سے بچے۔ (مسلم) یعنی چھوٹے گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر جمعہ کی نماز کے لئے آتا ہے، خوب دھیان سے خطبہ سنتا ہے اور خطبہ کے دوران خاموش رہتا ہے تو اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک، اور مزید تین دن کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (مسلم)
جمعہ کی نماز کے لئے مسجد جلدی پہونچنا:رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرتا ہے یعنی اہتمام کے ساتھ پھر پہلی فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے اﷲ کی خوشنودی کے لئے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا ۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے گویا اس نے انڈے سے اﷲ کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لئے نکل آتا ہے تو فرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں۔ (بخاری ، مسلم) یہ فرصت(گھڑی) کس وقت سے شروع ہوتی ہے، علماء کی چند آراء ہیں۔ مگر خلاصہ کلام یہ ہے کہ حتی الامکان مسجد جلدی پہونچیں۔ اگر زیادہ جلدی نہ جاسکیں تو کم از کم خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت قبل ضرور مسجد پہونچ جائیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پہلے آنے والے کا نام پہلے، اس کے بعد آنے والے کا نام اس کے بعد لکھتے ہیں(اسی طرح آنے والوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب سے لکھتے رہتے ہیں)۔ جب امام خطبہ دینے کے لئے آتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر (جن میں آنے والوں کے نام لکھے گئے ہیں) بند کردیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ (مسلم) خطبہ ٔجمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہونچنے والے حضرات کی نماز جمعہ تو ادا ہوجاتی ہے، مگر نماز جمعہ کی فضیلت ان کو حاصل نہیں ہوتی۔
خطبۂ جمعہ:جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ نماز سے قبل دو خطبے دئے جائیں۔ کیونکہ نبی اکرمﷺ نے ہمیشہ جمعہ کے دن دو خطبے دئے۔ دونوں خطبوں کے درمیان خطیب کا بیٹھنا بھی سنت ہے۔ (مسلم) منبرپر کھڑے ہوکر ہاتھ میں عصا لے کر خطبہ دینا سنت ہے۔
دوران خطبہ کسی طرح کی بات کرنا حتی کہ نصیحت کرنا بھی منع ہے: رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے روز دوران خطبہ اپنے ساتھی سے کہا (خاموش رہو ) اس نے بھی لغو کام کیا۔ (مسلم) رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کنکریوں کو ہاتھ لگایا یعنی دوران خطبہ ان سے کھیلتا رہا (یا ہاتھ ، چٹائی، کپڑے وغیرہ سے کھیلتا رہا) تو اس نے فضول کام کیا (اور اس کی وجہ سے جمعہ کا خاص ثواب ضائع کردیا)۔ (مسلم)رسول اﷲﷺ نے خطبہ کے دوران گوٹھ مارکر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ (ترمذی) (آدمی اپنے گھٹنے کھڑے کرکے رانوں کو پیٹ سے لگاکر دونوں ہاتھوں کو باندھ لے تو اسے گوٹھ مارنا کہتے ہیں) ۔حضرت عبد اﷲ بن بسرؓ فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن منبر کے قریب بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا ہوا آیا جبکہ رسول اﷲﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بیٹھ جا، تونے تکلیف دی اور تاخیر کی۔ (صحیح ابن حبان) نوٹ: جب امام خطبہ دے رہا ہو تو لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر آگے جانا منع ہے، بلکہ پیچھے جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائے۔
جمعہ کی نماز کا حکم: جمعہ کی نماز ہر اس مسلمان، صحت مند، بالغ ،مردکے لئے ضروری ہے جو کسی شہر یا ایسے علاقے میں مقیم ہو جہاں روز مرہ کی ضروریات مہےّا ہوں۔ معلوم ہوا کہ عورتوں، بچوں، مسافر اور مریض کے لئے جمعہ کی نماز ضروری نہیں ہے۔ البتہ عورتیں، بچے، مسافر اور مریض اگر جمعہ کی نماز میں حاضر ہوجائیں تو نماز ادا ہوجائے گی۔ ورنہ ان حضرات کو جمعہ کی نماز کی جگہ ظہر کی نماز ادا کرنی ہوگی۔ اگر آپ صحراء میں ہیں جہاں کوئی نہیں، یا ہوائی جہاز میں سوار ہیں تو آپ ظہر کی نماز ادا فرمالیں۔ نماز جمعہ کی دو رکعات فرض ہیں، جس کے لئے جماعت کی نماز شرط ہے۔ جمعہ کی دونوں رکعات میں جہری قراء ت ضروری ہے۔ نماز جمعہ میں سورۂ الاعلیٰ اور سورۂ الغاشیہ، یا سورۂ الجمعہ اور سورۂ المنافقون کی تلاوت کرنا مسنون ہے۔
جمعہ کے چند سنن وآداب:جمعہ کے دن غسل کرنا واحب یا سنت مؤکدہ ہے،یعنی عذر شرعی کے بغیر جمعہ کے دن کے غسل کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ پاکی کا اہتمام کرنا، تیل لگانا، خوشبو استعمال کرنا اور حسب استطاعت اچھے کپڑے پہننا سنت ہے۔نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن کا غسل گناہوں کو بالوں کی جڑوں تک سے نکال دیتا ہے، یعنی صغائر گناہ معاف ہوجاتے ہیں، بڑے گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ اگر صغائر گناہ نہیں ہیں تو نیکیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ (طبرانی ، مجمع الزوائد) نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، جتنا ہوسکے پاکی کا اہتمام کرتا ہے اور تیل لگاتا ہے یا خوشبو استعمال کرتا ہے، پھر مسجد جاتا ہے، مسجد پہنچ کر جو دو آدمی پہلے سے بیٹھے ہوں ان کے درمیان میں نہیں بیٹھتا، اور جتنی توفیق ہو جمعہ سے پہلے نماز پڑھتا ہے، پھر جب امام خطبہ دیتا ہے اس کو توجـہ اور خاموشی سے سنتا ہے تو اس شخص کے اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ (بخاری) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا، پھر مسجد میں آیا، اور جتنی نماز اس کے مقدر میں تھی ادا کی، پھرخطبہ ہونے تک خاموش رہا اور امام کے ساتھ فرض نماز ادا کی، اس کے جمعہ سے جمعہ تک اور مزید تین دن کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔ (مسلم) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، اگر خوشبو ہو تو اسے بھی استعمال کرتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے، اس کے بعدمسجد جاتا ہے ، پھر مسجد آکر اگر موقع ہو تو نفل نماز پڑھ لیتا ہے اور کسی کو تکلیف نہیں پہونچاتا۔ پھر جب امام خطبہ دینے کے لئے آتا ہے اس وقت سے نماز ہونے تک خاموش رہتا ہے یعنی کوئی بات چیت نہیں کرتا تو یہ اعمال اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہو جاتے ہیں۔ (مسند احمد)
سننِ جمعہ: مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز سے قبل بابرکت گھڑیوں میں جتنی زیادہ سے زیادہ نماز پڑھ سکیں پڑھیں۔ کم از کم خطبہ شروع ہونے سے پہلے چار رکعات تو پڑھ ہی لیں جیسا کہ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ صفحہ ۱۳۱) میں مذکور ہے: مشہور تابعی حضرت ابراہیم ؒ فرماتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام نماز جمعہ سے پہلے چار رکعات پڑھا کرتے تھے۔ (نماز پیمبر صفحہ ۲۷۹) نماز جمعہ کے بعد دو رکعات یا چار رکعات یا چھ رکعات پڑھیں، یہ تینوں عمل نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہیں۔ بہتر یہ ہے کے چھ رکعات پڑھ لیں تاکہ تمام احادیث پر عمل ہوجائے اور چھ رکعات کا ثواب بھی مل جائے۔ اسی لئے علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھنی چاہئیں، اور حضرات صحابہ کرام سے چھ رکعات بھی منقول ہیں۔ (مختصر فتاوی ابن تیمیہ، صفحہ ۷۹) (نماز پیمبر صفحہ ۲۸۱)
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کے بعد ۴ رکعات پڑھے۔ (مسلم) حضرت سالم ؒاپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے بعد دو رکعات پڑھتے تھے۔ (مسلم) حضرت عطاء ؒ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر بن عبد اﷲ ؓ کو جمعہ کے بعد نماز پڑھتے دیکھا کہ جس مصلّی پر آپ نے جمعہ پڑھا اس سے تھوڑا سا ہٹ جاتے تھے، پھر دو رکعات پڑھتے، پھر چار رکعات پڑھتے تھے۔ میں نے حضرت عطاء ؒ سے پوچھا کہ آپ نے حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ کو کتنی مرتبہ ایسا کرتے دیکھا؟ انھوں نے فرمایا کہ بہت مرتبہ۔(ابو داود)
نمازِ جمعہ چھوڑنے پر وعیدیں:نبی اکرم ﷺ نے نماز جمعہ نہ پڑھنے والوں کے بارے میں فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں پھر جمعہ نہ پڑھنے والوں کو ان کے گھروں سمیت جلا ڈالوں۔ (مسلم) رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: خبردار! لوگ جمعہ چھوڑنے سے رک جائیں یا پھر اﷲ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگادے گا، پھر یہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے۔ (مسلم) رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے تین جمعہ غفلت کی وجـہ سے چھوڑ دئے، اﷲ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔ (نسائی، ابن ماجہ، ترمذی، ابوداود)
جمعہ کے دن یا رات میں سورۂ کہف کی تلاوت:نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص سورۂ کہف کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا، آئندہ جمعہ تک اس کے لئے ایک خاص نور کی روشنی رہے گی۔ (نسائی، بیہقی، حاکم) سورۂ کہف کے پڑھنے سے گھر میں سکینت وبرکت نازل ہوتی ہے۔ حضرت براء بن عازب ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک صحابی ؓنے سورۂ کہف پڑھی، گھر میں ایک جانور تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے؟ تو انہیں ایک بادل نظر آیا جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا۔ صحابی نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی اکرمﷺ سے کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: سورۂ کہف پڑھا کرو۔ قرآن کریم پڑھتے وقت سکینت نازل ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری،فضل سورۃ الکہف۔ مسلم،کتاب الصلاۃ)
جمعہ کے دن درود شریف پڑھنے کی خاص فضیلت:نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔ اس دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ تمہارا درود پڑھنا مجھے پہونچایا جاتا ہے۔ (مسند احمد، ابوداود،ابن ماجہ،صحیح بن حبان) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات کثرت سے درود پڑھا کرو، جو ایسا کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔ (بیہقی)
جمعہ کے دن یا رات میں انتقال کرجانے والے کی خاص فضیلت:نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں انتقال کرجائے، اﷲ تعالیٰ اس کو قبر کے فتنہ سے محفوظ فرمادیتے ہیں۔ (مسند احمد ، ترمذی)
Post a Comment